Wednesday, 12 June 2019

انورشاہ اورکزئی ملک کی نصف آبادی سے زائد پرمشتمل خواتین یقینا ایک مظلوم قوم ہے اور گھر کی رونق ہے مگر کیاوجہ ہے کہ ہم عورت کو حقیر سمجھتے ہیں

انورشاہ اورکزئی
ملک کی نصف آبادی سے زائد پرمشتمل خواتین یقینا ایک مظلوم قوم ہے اور گھر کی رونق ہے مگر کیاوجہ ہے کہ ہم عورت کو حقیر سمجھتے ہیں،آج ہم قبائلی عورتوں پر بات کرتے ہیں کہ قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی خواتین کو کس قدر حقوق دئیے جاتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے کے مخصوص حالات نے خواتین کو چاروں اطراف سے گھیرے میں رکھا ہوا ہے ۔ آج کی عورت نہیں سمجھتی کہ وہ آخر کیا کرے، خواتین کی مظلومیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شادی سے پہلے اسکی مرضی نہیں پوچھی جاتی  خودساختہ پابندیوں کی شکار خواتین کے لئے گھر والے جو بھی لائے باامر مجبوری پسند کرلیتی ہے حالانکہ خواتین چاہتی ہے کہ اُس کو محرم کے ساتھ بازار جانے کی اجازت دی جائے تاکہ اپنی مرضی کے ساتھ ضررویات کی چیزیں خرید سکیں۔ اسلام میں  باپردہ خواتین بالغ محرم کے ساتھ بازارجاسکتی ہے مگر بازار میں کسی کے ساتھ بات نہیں کرسکتی ہے ۔ قبائلی علاقوں میں مرد حضرات خود کو غیرت مند سمجھتے ہیں مگر خواتین کو اپنا حق نہیں دیتے۔ جیساکہ جائیداد میں حصہ دینا ،شادی سے پہلے پوچھنا،لڑکیوں پر تعلیم حاصل کرنا وغیرہ۔ لوگ صرف اور صرف خواتین کو پہاڑ سے لکڑی لانے اور کھیتوں سے گھاس لانے کے لئے اجازت دیتے ہیں ۔خود کو معتبر مسلمان سمجھتے ہیں ۔ مگر اس کے باوجود اسلام میں جو حقوق بیان کئے گئے ہیں وہ خواتین کو نہیں دیتے جو ان کا حق بنتا ہے ۔عورتوں کے حقوق کا استحصال تو صدیوں سے چلا آرہا ہے اور ہمیشہ اُسے ایک انسان سے زیادہ باپ، بھائی اور شوہر کی عزت سمجھا جاتا ہے اس لئے فیصلہ کرنے کا حق یہاں اُسے چھین کر اُن لوگوں کے پاس چلا جاتا ہے ۔ جسکی وہ عزت اور غیرت سمجھی جاتی ہے۔ خواتین کو یہ سب بڑا مسئلہ ہے کہ قبائلی اور خیبرپختونخوا میں خواتین کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا ہے ۔ خیبر پختونخوا میں بعض علاقوں میں خواتین کو جائیداد میں حصہ دیا جاتا ہے ۔اسلام نے عورت کے حقوق آج سے چودہ سو سال پہلے ہی متعین کردئیے تھے جب عورت کو صرف پاؤں کی جوتی سمجھا گیا تھا۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے پوری دنیا اسلام کو تنگ نظری کا طعنہ دے رہی ہے ۔ حالانکہ اسلام نے عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دئیے ہیں ۔ مگر ہم عورتوں کو وہ حقوق نہیں دے رہے ہیں جو ان کا حق ہے ۔جیسا کہ وراثت میں عورتوں کو حصہ دینا۔والدین بیٹے کو جائیداد میں حصہ دیتے ہیں اور بیٹیوں کو نہیں ۔کیا بیٹی کا جائیداد میں حق نہیں بنتا ؟فاٹا اور خیبر پختونخوا کے عوام دل کو تسلی دیتے ہیں کہ وہ بہت اچھے ہیں ۔خاص کر خواتین کے ساتھ بہت اچھا رویہ رکھتے ہیں مگردوسری جانب  خواتین کونوکریوں کے لئے باہر نہیں چھوڑاجاتا بلکہ ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہم نے خواتین کو کتنا حق دیا ہے ۔اسلام اور شریعت محمدۖ نے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے جو قوانین اور فلسفہ پوری انسانیت کے لئے مرتب کیا ہے یقینا دنیا میں عورتیں ایک مظلوم قوم ہے تو اس حوالے سے پوری دنیا میں چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم ممالک ،حقوق نسواں کے نام سے پارلیمنٹ میں حقوق نسواں بلوں کو پاس کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں لیکن ہمارے معاشرے کو اب منفی سوچ کو بدلنا ہوگا اور کھلے ذہن اور دل سے عورتوں کے حقوق کے حصول کی یقین دہانی کرانی ہوگی ۔
قبائلی علاقہ وزیر ستان سے تعلق رکھنی والی عزیزہ محسود کہتی ہے کہ جہاں تک عورت کے حقوق کا تعلق ہے تو اس کیلئے ہمیں اسلامی تعلیمات پر نظر ڈالنا چاہیے ، زمانہ جاہلیت  میں عورت کو اسکے حقوق سے محروم رکھا جاتا ، ان کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا مگراسلام نے ان کی عظمت سے عالم کو روشناس کرایا ، انہیں ایک مقام دلایا ، بدقسمتی سے ہم نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر رسم و رواج کو اپنا نصب العین بنایا ، ہمارے معاشرے میں عورت کو حق تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے ، حالانکہ عورت کی تعلیم ایک معاشرے اور قوم کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے، ملک خدا داد کی زیادہ تر حصوں میں عورت کو اس قابل سمجھا ہی نہیں جاتا کہ اس کو وراثت میں حصہ دار ٹہرایا  جائے، یہ قرآنی تعلیمات سے کھلم کھلا بغاوت ہیں ، عورت کی بہت ساری ضروریات ہوتی ہیں ، اسلامی تعلیمات کی مطابق انہیں ان ضروریات کو پانے کا حق دینا چاہئے ، انہیں نوکریوں کی اجازت دی جائے،عورت کے حقوق کے متعلق ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب انکے مستقبل و زندگی کا فیصلہ کیا جاتا ہے تب بھی انکی مرضی نہیں جانی جاتی ، اس کے منفی اثرات ہمارے سب کے سامنے ہیں ، جب حضور اقدس (ص)  اپنی بیٹی حضرت فاطمہ سے پوچھ سکتے ہیں تو ہم کیوں ان کی تعلیمات سے انحراف کرتے ہیں ، نہ عورت کو پالیسی میکنگ میں نمائندگی دی جاتی ہیں ، نہ ان کی ضروریات کی مطابق تعلیمی ادارے بنائے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کیلئے روزگار کی یکساں مواقع پیدا کئے جاتے ہیں۔
پشاور سے تعلق رکھنی والی مونہ خان کہتی ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اولاد میںفرق نہ کریں ۔ بیٹی زیادہ کامیاب ہوتی ہے بانسبت بیٹوں کے اور بیٹی زیادہ آٹیچ ہوتی ہے ۔اگر کل بیٹی کامیاب ہوجاتی ہے تو اُس کافائدہ بھی والدین کو جاتا ہے ۔شادی کے بندھن میں دو انسان بندھے جاتے ہیں ۔دو انسانوں کی زندگی شروع ہوتی ہے ۔شادی کے وقت بیٹی سے ضرور پوچھنا چاہیے صرف بیٹے سے پوچھنا ٹھیک نہیں ہے ۔کیونکہ یہ ایک نئی زندگی شروع ہوتی ہے ۔اس لئے بہتر ہے کہ شادی سے پہلے دونوں سے پوچھا جائے ۔ا سلام بھی یہی درس دیتا ہے کہ شادی سے پہلے دونوں سے پوچھنا ضروری ہے تاکہ بعد میں لڑکی یا لڑکے کو مشکلات کا سامنا نہ ہو۔اس لئے اُسکی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق بھی اُسکے باپ اور بھائی کے پاس ہی ہوتا ہے ۔اور جسکی زندگی ہے وہ اپنے لئے فیصلہ ہی نہیں کرپاتی نہ ہی اُس سے پوچھنے کی زحمت کی جاتی ہے ۔جائیداد میں بیٹی کو حصہ دینا ضروری ہے ۔ مہذب او ر قانون کہتا ہے کہ بیٹے کے ساتھ ساتھ بیٹی کا بھی حق بنتا ہے کہ جائیداد میں اسلامی قوانین کے مطابق حصہ دیا جائے۔ گاؤں اور دیہاتوں میں یہ رواج زیادہ ہے کہ بیٹیوں کو جائیداد نہیں دی جاتی۔ جادئیداد بہنوں کی ہوتی ہے مگر اُس پر اُس کے بھائی قابض ہوجاتے ہیں۔عورتیں گھروں سے نکل کر نا چاہتی ہے تو پھر جنسی ہراسائی کا شکار کی جاتی ہے لوگوں کی نظروں کاسامنا کرتی ہیں اور معاشرے کی ترقی عورتوں کی معیشت میں شمولیت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
ضلع کرم  سے تعلق رکھنے والے مولانا سید نصیر کے مطابق کہ اسلام نے مردوعورت کو مساوی حقوق دئیے ہیں ، عورت کو اختیار حاصل ہے کہ جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے بشرطیکہ غیرمسلم کے ساتھ نہ ہواگرایساہو تو حاکم مسلم کی جانب سے فسخ کرنے سے نکاح فسخ اور باطل ہوگی ۔یہ اختیارات بھی اولیاء کو نہیں دی ہے بلکہ حاکم کو دی ہے کہ اولیاء راضی نہ ہونے کی صورت میں نکاح کو فسخ کرے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم لوگ اپنے اپکو اچھے سمجھتے ہیں مگردوسری جانب شریعت کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔
میراث۔ سورة النساپارہ چہارم آیت نمبر چھ سے لیکر آیت نمبر چوہ دتک میں آٹھ قسم کی عورتوں کا ذکر ہے، جسکے مطابق عورت میت سے چھوڑی ہوئی مال میں سے حصہ لے سکتی ہے ۔وہ آٹھ قسم کے عورتیں یہ ہے ۔
ا) بیوی چاہے ایک ہو یا چار ہوں
بیٹی چاہے ایک ہو یا زیادہ ٢)
پوتی اگر چہ بہت نیچے یعنی دور ہو رشتے میں ٣)
۴ حقیقی بہن یعنی ماں باپ شریک بہن۔)
علاتی بہن یعنی صرف باپ شریک بہن ٥)
۶اخیافی بہن یعنی صرف ماں شریک بہن۔)
ماں چاہے ایک یا زیادہ  ٧) ۔
'''مولانا خلیل اللہ کے مطابق کسی کا حق چھیننا کسی کو حق نہ دینا اس کے بارے میں اسلام نے بہت زور دیا ہے ۔کسی کو اپنا حق نہ دینا اور کسی کا حق چھیننا یہ بہت بڑا ظلم ہے ۔ اُن کے مطابق کہ حدیث مبارک ہے ۔
ترجمہ : اگر کوئی شخص کسی کا زمین دبائے ۔تو قیامت کے دن سات زمینوں تک اُس کے گلے میں طوق بناکر ڈال دیا جائے گا۔ایک سوال کے جواب پر مولانا خلیل اللہ کا کہنا تھا کہ اسلام میں ہے کہ عورت کو جائیداد میں حصہ دیا جائے ۔ ہر عورت کو جائیداد میں حصہ دینا چاہیے ۔جو بھی اپنے بہن،بیٹی ،ماں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیتا وہ ظلم کرتا ہے ۔اُ س کے مطابق کہ حدیث میں اگر کسی شخص نے دو لڑکیوں کی پرورش کی گویا اُس نے جنت میں جگہ بنائی ۔حدیث ہے ۔ترجمہ :اگر کسی نے دو لڑکیوں کی پرورش کی تو اُس کے لئے یہ پرورش جہم سے آڑ(پردہ )ہے۔مولانا خلیل کے مطابق کہ ضرورت کے مطابق عورت بالغ محرم کے ساتھ بازار جاسکتی ہے ۔ایسا نہ ہو کہ عورت بازار میںکسی دکاندار کے ساتھ بات کریںیا کسی کو اپنا چہرہ دیکھائے ۔عورت کو اجازت حاصل نہیں ہے کہ وہ بازار میں کسی کے ساتھ بات کریں۔''
اسلام نے عورت کو وہ مثالی حقوق دیے ہیں جو آج تک کوئی تہذیب یا مذہب اسے نہیں دے سکا۔ لیکن اس معاشرے میں ہماری بہن اوربیٹی ان کے وراثتی حقوق سے محروم ہے جواسے اسلام جیسے عظیم دین نے دیے تھے۔ مسلمان معاشرے کی عورت کو آج بھی اکثر وراثت کے حق سے محروم رکھا جاتاہے۔قرآن عورت کو وراثت میں حقدار بناتا ہے لیکن ہم عورت کو اس کے اس حق سے محروم کیے ہوئے ہیں۔کیا دنیا دار اور کیا دیندار کوئی بھی اپنی بہن بیٹیوں کو وراثت میں حقدار نہیں ٹھہراتا اور چند برتن جہیز میں دے کر اسے اس کے حصے کی جائیداد سے محروم کرنے کی روایت ہمارے معاشرے میں عام ہے۔معاشرے کی تباہی کی ایک نشانی وراثت کی تقسیم میں انصاف کا نہ ہونا بھی ہے اسی لئے باوجود اس کے کہ مدرسوں کے نصاب میں اور وکیلوں کی پڑھائی میں وراثت کی تقسیم کا مضمون شامل ہوتا ہے لیکن ان دونوں طبقوں میں کم ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو شرعی طریقے سے وراثتی جائداد تقسیم کرتے ہیں۔علما ء  حضرات بھی اپنی بہنوں بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے پاکستانی معاشرے میں پانچ فیصد ہی ایسے لوگ ہوں گے جن کے ہاں عورتوں کو وراثت میں حصہ دیا جاتا ہوگا۔جب علماء کے گھرانوں میں عورتوں کو ان کے واضح قرآنی حق سے محروم رکھا جاتا ہے تو ان لوگوں کا کیا کہنا جن کے ہاں دینی علم کی روشنی پہنچی ہی نہ ہو۔جو اہل علم ہیں وہ برابر کے قصوروار ہیں اس لئے کہ وہ اس علم پر خزانے کے سانپ بن کر بیٹھے ہیں اور انہوں نے خود بھی اللہ کے ان احکامات کو پاؤں تلے روندا ہوا ہے اور کسی دوسرے کو بھی ان پر عمل کرنے کی تعلیم نہیں دیتے۔اسلام نے عورتوں کو ہر لحاظ سے کافی حقوق دئیے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جو قرآن و حدیث میں ہے اس پر عمل کیا جائے ۔ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہم کسی کے حق پر قبضہ کررہے ہیںاور اس کا عذاب کتنا ہوگا۔ ہم چوری کو چوری یعنی حرام سمجھتے ہیں اور کسی دوسرے کے حق پر قبضہ بھی نہیں کرتے ۔اور جو اپنے گھر میں خواتین ہیں اُس کی جائیداد کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔یعنی اُس کو اپنا حق نہیں دیتے ۔اللہ تعالی ہمیں اس قابل بنائیں کہ اپنے ہی خواتین کو جائیداد میں حصہ دیں اور اُن کو برابر حقوق دے دیں۔))