http://www.urdu.fnpk.org/?p=984
”انورشاہ اورکزئی
حالیہ دہشت گردی میں فاٹا سمیت پورے پاکستان میں سو سے زائد صحافی شہید ہوئے ہیں۔ انہوں نے سچ بولا اور لکھا جس کا بدلہ انہیں موت کے صورت میں ملا ہے۔ پاکستان میں رپورٹنگ آسان کام نہیں کیونکہ یہاں صحافی کو ٹارگٹ کرنا انتہائی آسان ہے۔ میڈیا ادارے بھی ایسے ہیں جو صحافی سے کام تو تمام لیتے ہیں لیکن ادارے کی جانب سے کوئی خاص تربیت نہیں ملتی ہے۔ قبائلی علاقوں میں تو رپورٹنگ کرنا گویا کسی سے دُشمنی موہ لینے کے برابر ہے۔ اکثر فیصد صحافی مفت میں کام کرتے ہیں۔ تین سے چار ادارے ایسے ہیں جو ماہانہ تنخواہیں دیتے ہیں باقی نے مفت میں نمائندے مقرر کئے ہیں۔ اس میں بعض ادارے ایسے ہیں جو نمائندے سے ناقابل واپسی سکیورٹی کے نام پر پیسے لیتے ہیں اور نمائندے کو کہتے ہیں کہ جاؤ کہیں سے اشتہار لے آؤ اور اگر وہ اشتہار نہیں دیتے تو پھر اُس کے جگہ کسی اور کو نمائندہ مقرر کر دیا جاتا ہے۔
کرم ایجنسی میں صحافتی ذمہ داری نبھانہ کسی خطرے سے کم نہیں ہے۔ صحافی پر چاروں اطرف سے دباؤ ہوتا ہے۔ مقامی پولیٹیکل انتظامیہ کے جانب سے بھی۔ اگر ایک صحافی کسی کے خلاف خبر لگائے اور خبر درست بھی ہو تو فریق جرگہ کے شکل میں اُس کے گھر جاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ آپ نے کیوں یہ خبر چلائی تھی جس کے باعث مجھے نقصان پہنچا ہے۔ علاقے میں جو بااثر افراد ہیں اُس کے خلاف خبر لگانا موت کو گلے لگانے کے برابر ہے۔ راقم کو کئی بار پولیٹیکل انتظامیہ کے جانب سے دھمکیاں مل چکی ہے اور ساتھ ہی گھر کے چار دیواری پامال کرتے ہوئے گھر میں گھس آئے اور دو افراد کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ بعد میں میڈیا کے دباؤ کے باعث دونوں کو رہا کر دیا گیا۔ جب گورنر خیبر پختنونخوا، اے سی ایس فاٹا اور پولیٹیکل ایجنٹ کے خلاف بتائے گئے ذرائع کی بنیاد پر خبر لگائی اس کے باوجود راقم کو گھر سے گرفتار کیا گیا۔ بعد میں انکاری تھے کہ صحافی کو رات کے تاریکی میں گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ چائے پلانے گاڑی میں بیٹھا کر جیل لے جایا گیا ہے۔ خبر میں ذرائع کا نام دیا گیا تھا اس کے باوجود صحافی کو گرفتار کرنا ناانصافی ہے۔ خبر درست ہونے کے باوجود مخالف فریق صحافی کو دھمکیاں دینے کے ساتھ ساتھ مختلف طریقوں سے اسے تنگ کرتے ہیں۔ کرم ایجنسی میں پولیٹیکل انتظامیہ کے جانب سے کوئی خاص تعاون نہیں کیا جاتا ہے۔ جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو انتظامیہ کے اہلکار معلومات دینے میں سستی اختیار کرتے ہیں۔ مقامی انتظامییہ نے ایک بیان کے ذریعے خبردار کیا ہے کہ کرم ایجنسی کا دورہ کرنے والے صحافی پہلے ڈائریکٹر انفارمیشن فاٹا سے این او سی حاصل کریں۔
اس طرح کرم ایجنسی کی پولیٹیکل انتظامیہ نے ایجنسی کا دورہ کرنے والے صحافیوں کے لیے این او سی ضروری قرار دیا ہے۔ صحافی محمد بلوچ کے مطابق قبائلی علاقہ جات میں صحافی انتہائی کٹھن مراحل سے گزرتے ہوئے اور اپنے چینلز/اخبارات کے نخرے سہتے ہوئے رپورٹنگ کرتے ہیں۔ اکثر صحافی گھر میں افلاس کے باوجود رپورٹنگ کا خرچہ جیب سے برداشت کرتے ہیں۔ اشتہارات کی صورت میں بیس فیصد کمیشن ملتی ہے لیکن بدقسمتی سے فاٹا سے اشتہارات ملنا محال ہے۔ مختصر اشتہارات یعنی کلاسیفائیڈ کے علاوہ کچھ نہیں۔ دوسری طرف علاقائی صورتحال کے باعث بعض صحافیوں کو دھمکیاں بھی ہیں۔ مقامی عوام کا خیال ہے کہ صحافی بڑا کماتے ہوں گے لیکن انہیں معلوم نہیں کہ قبائلی صحافی فاقوں کے شکار ہیں۔ صرف اور صرف خدمت کاجذبہ انہیں کام کرنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔ عوام بھی اپنی کمزوریاں چھپانے کے لیے صحافی کو مورد الزام ٹھراتے ہیں۔ قبائلی صحافی واحد مخلوق ہے جو مفت میں خدمت کرتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں صحافت جنگی محاذ میں بنا ہتھیار کے لڑنے کے مترادف ہے۔ یہاں صحافیوں کو اپنے پیشہ وارانہ امور نمٹانے میں جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُن میں ایف سی آر اور مقامی پختون روایات بھی اہم ہیں۔
صحافی نسیم شاکر کے مطابق ملک کے دیگر علاقوں کے برعکس قبائلی علاقوں میں صحافت کرنا یوں مشکل ہے کہ اگر ایک طرف صحافی کو مقامی انتظامیہ اور حکومت کی طرف سے دباو کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف مختلف دہشت گرد تنظیم، جرائم پیشہ عناصر اور بااثر افراد بھی صحافیوں کی راہ میں ایک پوشیدہ رکاوٹ ہیں۔ پھر بھی صحافیوں سے گلہ کیا جاتا ہے۔ جب بھی دبدعنوانی کی کہانی شائع ہوتی ہے تو پھر جرگہ آتے ہیں۔ دھونس دھمکی دینے کے بعد کہتے ہیں کہ جتنا نقصان ہوا ہے آپ اُس کے ذمہ دار ہونگے۔ اُن کے مطابق کرم ایجنسی میں جب بھی دھماکے ہوتے ہیں تو انہیں وہاں جانے کی اجازت بھی نہیں ہوتی اور پولیٹیکل انتظامیہ بھی معلومات فراہم نہیں کرتی ہے۔
قبائلی علاقوں کے صحافیوں کے مسایل کے حل کی ایک جامع کوشش کی اشد صرورت ہے۔
انور شاہ نوجوان قبایلی صحافی ہیں
تصویر: بشکریہ گوگل تصاویر
No comments:
Post a Comment